روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اے نبی کی بیبیو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیارکرو تو تم نامحرم مرد سے بولنے میں جب کہ بہ ضرورت بولنا پڑے نزاکت مت کرو۔ اس سے ایسے شخص کو طبعاً خیال فاسد پیدا ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ عفت کے موافق بات کہو یعنی صرف نسبت بلا تقویٰ ہیچ ہے (اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ) جیسے عورتوں کے کلام کا فطری انداز ہوتا ہے کہ کلام میں نرمی ہوتی ہے تم سادہ مزاجی سے اس انداز کو مت استعمال کرو۔ بلکہ ایسے موقع پر تکلّف اور اہتمام سے اس فطری انداز کو بدل کر گفتگو کرو یعنی ایسے انداز سے جس میں خشکی اور روکھا پن ہو کہ یہ طرزعفت کا محافظ ہے۔ ( تفسیر بیان القرآن) فائدہ: ان آیات سے حسب ذیل سبق ملتا ہے: ۱) عورتوں کو بوقت شدید ضرورت اگرغیر محرم مرد سے بات کرنی ہو تو پردہ کے باوجود آواز کو بھی نرم نہ ہونے دیں، تکلّف اور اہتمام سے آواز کو ذرا سخت کریں جس میں لچک اور نزاکت کی ذرا بھی آمیزش نہ ہو۔ ۲) جب عورتوں کے لیے یہ حکم ہے تو مَردوں کو غیر محرم عورتوں سے نزاکت والی آواز سے بولنا کب جائز ہوگا۔ لہٰذا بوقت ضرورت غیر محرم عورتوں سے بات کرتے وقت اپنی آواز کو سخت رکھنا چاہیے۔ ۳) جس شخص کو عورتوں کی آواز کی نرمی اور نزاکت سے خیالاتِ فاسدہ پیدا ہوں یا عورتوں کی طرف میلان پیدا ہو توقرآن نے اِس طمع و کشش، میلان و رغبت کو قلب کی بیماری قرار دیا ہے۔ اِس سے دَورِ حاضر کے اُن دوستوں کوسبق حاصل کرنا چاہیے جو ٹیلی فون ایکسچینج پر عورتوں کو محض اِس وجہ سے ملازم رکھتے ہیں کہ اُن کی آواز سے کانوں کو لطف ملتا ہے۔ اور مَردوں کی آواز سے سمع خراشی ہوتی ہے۔ تنبیہ:خوب یاد رکھنا چاہیے بالخصوص سالکینِ طریق اور عاشقینِ حق کو کہ حظِ نفس کا نقطۂآغاز حق تعالیٰ سے بُعد و فراق کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دشمن ایمان و دین یعنی نفس کو خوش کرنے سے ہوشیار رہیں۔