روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
حضرت حکیم الامّت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ جس مرد سے (اگرچہ وہ اَ مْرَد یعنی لڑکا نہ ہو) گفتگو میں اُس کی آواز اور اُس کے نقشہ اور چہرہ اور آنکھوں سے نفس کو لطف ملنا شروع ہو فوراً اُس سے ہٹ جاوے۔ (انتھٰی کلامہٗ) کیوں کہ بعض حسین لڑکے داڑھی مونچھ کے کچھ کچھ نکلنے تک بھی اپنے اندر حُسن کا اثر رکھتے ہیں اور عشقِ مجاز کے بیماروں کو بیمار کرتے ہیں۔ پس نفس کے بیمار کو حُسنِ رفتہ کے آثار تک دیکھنے سے احتیاط چاہیے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نفس کو جس سے بھی مزہ ملے اُس سے فوراً الگ ہوجاوے کیوں کہ نفس کو ذرا بھی مزہ ملنا خطرے سے خالی نہیں۔ دشمن کو تھوڑا خوش دیکھنا بھی گوارا نہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ تھوڑی خوشی سے بھی نفس کو طاقت آجاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی معصیت میں کھینچ لے جاوے گا۔جس طرح غیر محسوس ہلکی حرارت زیادہ خطرناک ہوتی ہے کہ آدمی اس کے علاج سے غافل رہتا ہے اِسی طرح جس شخص کی طرف نفس کا ہلکا سا میلان ہو اس کی صحبت بھی نہایت خطرناک ہوتی ہے کیوں کہ شدید میلان اور شدید رغبت والی صورتوں سے تو سالک بھاگتا ہے مگر یہاں ہلکے میلان کے سبب اسے احتیاط کی توفیق نہیں ہوتی اس طرح ہلکے ہلکے زہر کو شیطان اس کی روح میں اُتارتا رہتا ہے یہاں تک کہ نفس قوی ہوکر سالک کو بڑے بڑے گناہوں کی طرف نہایت آسانی سے کھینچ لے جاتا ہے ؎ گوشۂ چشم سے بھی اُن کو نہ دیکھا کرنا نفس کا اژدہا دِلا دیکھ ابھی مَرا نہیں غافل اِدھر ہو ا نہیں اِس نے اُدھر ڈسا نہیں بھروسہ کچھ نہیں اِس نفس ا مّارہ کا اے زاہد فرشتہ بھی یہ ہو جاوے تو اِس سے بدگماں رہنا یاد رکھنا چاہیے کہ حظِ نفس کا نقطۂآغاز بُعد عن الحق کا نقطۂآغاز ہوتا ہے۔یعنی نفس کا کسی گناہ سے ابتدائی مرحلہ میں اگر ایک اعشاریہ سے بھی کم ہو لطف لینا حق تعالیٰ سے کسی درجہ میں دُوری کا سبب ہوتا ہے۔