روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
نیت سے خوب دل لگا کر پڑھے۔ یہ مضامینِ خوف ’’حکایاتِ صحابہ ‘‘ (رضوان اﷲعلیہم اجمعین)مصنفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مأخوذ ہیں۔ حضور صلی اﷲعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں جو آخرت کے حالات دیکھتا ہوں اگر تم کو معلوم ہوجائیں تو ہنسنا کم کردو اور رونے کی کثرت کردو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔ کبھی فرماتے: کاش! میں کوئی گھاس ہوتا کہ جانور اس کو کھا لیتے۔ کبھی فرماتے کہ کاش! میں کسی مؤمن کے بدن کابال ہوتا۔ ایک مرتبہ ایک باغ میں تشریف لے گئے ایک جانور کو دیکھ کرٹھنڈاسانس بھرا اور فرمایا کہ تو کس قدر مزےمیں ہے کہ کھاتا پیتا ہے اور درختوں کے سائے میں پھرتا ہے اور آخرت میں تجھ پر کوئی حساب کتاب نہیں، کاش !ابو بکر بھی تجھ جیسا ہوتا۔ حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش! مجھے میری ماں نے جناہی نہ ہوتا۔ بسا اوقات ایک تنکا ہاتھ میں لیتے اور فرماتے: کاش! میں تنکا ہوتا۔تہجد کی نماز میں بعض مرتبہ روتے روتے گرجاتے اور بیمار ہوجاتے،ایک بارصبح کی نماز میں جب اس آیت اِنَّمَاۤاَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْۤ اِلَی اللہِ ؎ پرپہنچے تو روتے روتے آواز نہ نکلی۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما حق تعالیٰ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ چہرے پر آنسوؤں کے بہنے سے دو نالیاں سی بن گئی تھیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ نماز کے لیے تشریف لائے تو ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ کھل کھلا کر ہنس رہی تھی اور ہنسی کی وجہ سے دانت کھل رہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر موت کو کثرت سے یاد کرو تو جو حالت میں دیکھ رہا ہوں وہ پیدا نہ ہو۔ لہٰذا موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ،اورقبر پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں وہ یہ آواز نہ دیتی ہو کہ میں بیگانگی کا گھر ہوں، تنہائی کا گھر ہوں، مٹی کا گھر ہوں، کیڑوں کا گھر ہوں۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲعنہما بہت رویا کرتے تھے،حتّٰی کہ روتے روتے ------------------------------