روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
تلاوت کرتا۔ پس آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس پر سُکوت فرمانا اور نکیر نہ فرمانا مدلولِ مذکور کے لیے دلیل ہے۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اعمالِ خیر (رضائے حق کے لیے ) کرتا ہے اور لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ لوگ اُس سے محبت کرتے ہیں (تو آپ کی کیا رائے ہے) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ؎ یہ مؤمن کی جلد ملنے والی بشارت ہے۔یعنی یہ دُنیا کا انعام ہے، آخرت کا انعام اِس سے الگ ہے۔اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ لوگوں کے دیکھ لینے کے خوف سے اپنا نیک عمل ہی چھوڑ دیتے ہیں یہ صحیح نہیں بلکہ محققین مشایخ نے فرمایا کہ نیک عمل جس طرح مخلوق کے لیے کرناریا ہے اِسی طرح مخلوق کے خوف سے یعنی ریا کے خوف سے کسی عملِ خیر کا ترک کرنا بھی ریا ہے۔ پس جس معمول کا جو وقت ہے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے اُسی وقت کرلے، کسی کے دیکھنے نہ دیکھنے کی ہرگز پروا نہ کرے۔ ریا ایسی بلا نہیں جو بدون نیت اور ارادہ خودبخود کسی کو چمٹ جائے جب تک دکھاوے کی نیت نہ ہو،اور نیت بھی غرضِ دُنیا کی ہو تب ریا ہوتی ہے،اور اگر نیت تو رضائے حق کی ہے مگر پھر دل میں وسوسہ آتا ہے کہ شاید اِس عبادت سے ریا کاری کررہا ہوں تو یہ وسوسۂریا ہے جس کی ہرگز پروا نہ کرے اور نہ پریشان ہو ورنہ شیطان وسوسہ ڈال کر اِس عملِ خیر سے محروم کردے گا یعنی خوفِ ریا پیدا کرکے آپ کو اِس عمل ہی سے روک دے گا۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے اِس کی عجیب مثال دی ہے کہ آئینہ کے اُوپر جب مکھی بیٹھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مکھی آئینہ کے اندر بھی موجود ہے حالاں کہ وہ باہر بیٹھی ہوتی ہے۔ اِسی طرح سالک کے قلب کے باہرشیطان ریا کا وسوسہ ڈالتا ہے اور سالک سمجھتا ہے ہائے یہ تومیرے قلب کے اندر ہے۔پس اِس کو ریا نہ سمجھے ------------------------------