روح کی بیماریاں اور ان کا علاج |
س کتاب ک |
|
اُس بدنگاہی کی ظلمت کا احساس ہوگیا اور موقع مناسب دیکھ کر عرض کیا کہ بڑے میاں!آپ مجھے جو بار بار دیکھتے ہیں تو میرے قلب میں آپ کے اِس عمل سے تاریکی محسوس ہوتی ہے۔ اُنہوں نے اقرار کیا کہ واقعی ہم گناہ گار ہیں اور آپ کو بُری نیت سے اور نفس کے تقاضے سے دیکھا کرتے تھے اب میں توبہ کرتا ہوں کہ آپ کو دیکھنے سے آیندہ اپنی نظر کی احتیاط اور حفاظت رکھوں گا۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ وہ لڑکا متقی اور ذاکر تھا۔ ذکر کے نور سے یہ بصیرت اُس کو حاصل ہوئی تھی۔ ۳۶)بدنگاہی کی عادت کے ساتھ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا ولی نہیں ہوسکتا اور نہ ذکر و طاعت کی حلاوت اُسے حاصل ہوگی۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ بدنگاہی کا یہی عذاب کیا کم ہے کہ ذکر و عبادت کی حلاوت(مٹھاس) ختم ہوجاتی ہے۔ ۳۷) بدنگاہی کرنا ایساہے کہ دل غیر خدا کو دے دینا ہے کیوں کہ دل سینے سے نہیں چوری ہوتا ہے،آنکھوں کے دروازے سے نکل جاتا ہے۔ اِسی سبب سے حضرت سعدی شیرازیرحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ؎ خواہی کہ بکس دل ندہی دیدہ بہ ببند اگر تو چاہتا ہے کہ دل کسی کو نہ دے تو آنکھیں بند رکھ (حسینوں سے) کیوں کہ ؎ ایں دیدہ کہ شوخ میبرد دل بکمند یہ شوخ نظر دل کو سینے سے نکال لیتی ہے، اور دل تو اُسی کو دینا چاہیے جس نے دل دیا ہے۔ اِسیلیے اﷲ والوں کو اہلِ دل بھی کہتے ہیں۔ احقر کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را د ل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہے جو اپنا دل خدا کو دے دے یعنی دل اُس کو دے دے جو دل عطا فرماتا ہے۔ عاشقِ مجاز کا دل جب معشوقِ فانی لیتا ہے تو اُس کو پریشانی شروع ہوجاتی ہے کیوں کہ آبِ شور پیاس کا علاج نہیں لہٰذا بے ساختہ کسی شاعر نے کہا ؎