دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کہ نہج البلاغہ کو شیعہ حضرات مستند مانتے ہیں ، نہج البلاغہ میں ہے کہ حضرت امیر سے ان کے بعض اصحاب و رفقاء نے خود کہا کہ اگر آپ ان لوگوں کو سزا دے دیں جنہوں نے عثمان غنیؓ پر حملہ کیا تو بہتر ہوگا، اس پر حضرت امیرؓ نے فرمایا کہ میرے بھائی! میں اس بات سے بے خبر نہیں جو تم کہتے ہو مگر یہ کام کیسے ہو جب کہ مدینہ پر یہی لوگ چھائے ہوئے ہیں ، اور تمہارے غلام اور آس پاس کے اعراب بھی ان کے ساتھ لگ گئے ہیں ۔ ایسی حالت میں ان کی سزا کے احکام جاری کردوں تو نافذ کس طرح ہوں گے۔ حضرت صدیقہؓ کو ایک طرف حضرت علی کی مجبوری کا اندازہ تھا دوسری طرف یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت سے مسلمانوں کے قلوب زخمی ہیں ، اور ان کے قاتلوں سے انتقام لینے میں تاخیر جو امیر المومنین علیؓ کی طرف سے مجبوری دیکھی جارہی تھی اور مزید یہ کہ قاتلان عثمانؓ امیر المؤمنین کی مجالس میں بھی شریک ہوتے تھے، جو لوگ حضرت امیر المؤمنین کی مجبوری سے واقف نہ تھے ان کو اس معاملہ میں ان سے بھی شکایت پیدا ہورہی تھی ممکن تھا کہ یہ شکوہ و شکایت کسی دوسرے فتنے کا آغاز نہ بن جائے، اس لیے لوگوں کو فہمائش کرکے صبر کرنے اور امیرا لمؤمنین نے حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان فرمایا تھا، جیسا کہ آگے آئے گا، اور ایسے شدید فتنہ کے وقت اصلاح بین المؤمنین کا کام جس قدر اہم دینی خدمت تھی وہ بھی ظاہر ہے، اس کے لیے اگر ام المؤمنین نے بصرہ کا سفر محارم کے ساتھ اور پردہ کے آہنی ہودج میں اختیار فرمالیا تو اس کو جو شیعہ اورروافض نے ایک طوفان بنا کر پیش کیا ہے کہ ام المؤمنینؓ نے احکامِ قرآن کی خلاف ورزی کی اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ آگے منافقین اور مفسدین کی شرارت نے جو صورت جنگ باہمی کی پیدا کردی اس کا خیال کبھی صدیقہؓ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا، اس آیت کی تفسیر کے لیے اتنا ہی کافی ہے آگے واقعہ جنگ جمل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ، مگر اختصار کے ساتھ حقیقت