دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
نہیں دیتے البتہ اپنے انبیاء کا انتخاب کرکے ان کو دیتے ہیں ۔ اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تو انبیاء بھی علم غیب کے شریک اور عالم الغیب ہوگئے، کیونکہ وہ علم غیب جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے، کسی مخلوق کو اس میں شریک قرار دینا شرک ہے، وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے، ایک یہ کہ وہ علم ذاتی ہو، کسی دوسرے کا دیا ہوا نہ ہو، دوسرے تمام کائنات ماضی و مستقبل کا علم محیط ہو، جس سے کسی ذرے کا علم بھی مخفی نہ ہو، حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امور غیبیہ بتلاتے ہیں وہ حقیقۃً علم غیب نہیں ہے بلکہ غیب کی خبریں ہیں ، جو انبیاء کو دی گئی ہیں جن کو خود قرآن نے کئی جگہ انباء الغیب سے تعبیر فرمایا: ’’مِنْ اَنْبَآئِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ‘‘۔(معارف القرآن آل عمران پ۴، ۲؍۱۴۹)شرک اصغر کی حقیقت سورۂ کہف کی آخری آیت میں ’’ وَلایُشْرِکُ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا‘‘ کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرک خفی یعنی ریا ہے۔ امام حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی اور اس کو صحیح علی شرط الشیخین فرمایا ہے، روایت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا، اس کے ساتھ اس کی یہ خواہش بھی تھی، کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا۔ خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاکاری کا شرک خفی ہے اور یہ کہ عمل اگر چہ اللہ ہی کے لیے ہو مگر اس کے ساتھ کوئی