دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
عتاب بھی ہوا، حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بھی اس میں داخل ہے۔ ایسے واقعات کا حاصل باتفاق امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطاء و نسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا ہے، کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا، غلطی اجتہادی ہوئی ہے یا خطاء ونسیان کے سبب قابل معافی ہوتی ہے جس کو اصلاح شریعت میں گناہ نہیں کہا جاسکتا، اور یہ سہو و نسیان ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ و تعلیم اور تشریع سے ہو، بلکہ ان سے ذاتی افعال و اعمال میں ایسا سہو ونسیان ہوسکتا ہے۔ (تفسیر بحرالمحیط) مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کا مقام نہایت بلند ہے، اور بڑوں سے چھوٹی غلطی بھی ہو جائے تو بہت بڑی غلطی سمجھی جاتی ہے اسی لیے قرآن حکیم میں ایسے واقعات کو معصیت اور گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس پر عتاب بھی کیا گیا ہے اگر چہ حقیقت کے اعتبار سے وہ گناہ ہی نہیں ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۱۹۵، سورۂ بقرہ ، پ:۱)انبیاء علیہم السلام کی طرف عصیان کی نسبت کرنا جائز نہیں ’’وَعَصَی اٰدَمُ رَبَّہُ فَغَوَی‘‘۔(سورۂ طٰہٰ پ۱۶) قاضی ابو بکر ابن عربی نے احکام القرآن میں آیت مذکورہ میں جو الفاظ عصیٰ وغیرہ آدم علیہ السلام کے بارے میں ہیں اس سلسلہ میں انہوں نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی ہے وہ انہیں کے الفاظ میں یہ ہے: ’’لایجوز لاحدنا الیوم أن یخبر بذلک عن آدم إلا إذا ذکرناہ فی اثناء قولہ تعالیٰ عنہ اوقول نبیہ، فاما ان یبتدئ ذلک من قبل نفسہ فلیس بجائزلنا فی آبائنا الأوّلین الینا المماثلین لنا فکیف فی ابینا الأقدم الأعظم الا کرم النبی المقدم الذی عذرہ ﷲ سبحانہ وتعالیٰ