دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
سنت اور بدعت کے حدود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات، معاملات اور معاشرت سب ہی چیزوں میں اپنے قول وعمل سے اعتدال کی حدود و مقرر فرمادی ہیں اور ان سے پیچھے رہنا کوتاہی اور آگے بڑھنا گمراہی ہے، اسی لیے آپ نے بدعات اور محدثات کو بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے، ارشاد فرمایا: کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِیْ النَّارِ۔ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔ بدعت اسی چیز کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل میں صراحۃً یا اشارۃً موجود نہ ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے لکھا ہے کہ اسلام میں بدعت کو اس لیے سخت جرم قرار دیا کہ وہ تحریف دین کا راستہ ہے، پچھلی امتوں میں یہی ہوا کہ انہوں نے اپنی کتاب اور اپنے رسول کی تعلیمات پر اپنی طرف سے اضافے کرلیے اور ہر آنے والی نسل ان میں اضافے کرتی رہی، یہاں تک کہ یہ پتہ نہ رہا کہ اصل دین کیا تھا۔ (معارف القرآن ۲؍۶۲۱ سورہ نساء)بدعت کی مذمت وقباحت قرآن کی روشنی میں ’’اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَا اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْن‘‘ ۔(سورہ انعام) یعنی وہ لوگ جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں ، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ جتلائے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے۔