دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اس آیت میں غلط راستوں پر پڑنے والوں کے متعلق اول تو یہ بتلادیا کہ اللہ کا رسول ان سے بری ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، پھر ان کو یہ وعید شدید سنائی کہ ان کا معاملہ بس خدا تعالیٰ کے حوالے ہے، وہی ان کو قیامت کے روز سزادیں گے۔ دین میں تفریق ڈالنا اورفرقے بن جانا جو اس آیت میں مذکور ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اصول دین کے اتباع کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور خواہشات کے مطابق یا شیطانی مکروتلبیس میں مبتلا ہوکر دین میں کچھ نئی چیزیں بڑھادے یا بعض چیزوں کو چھوڑ دے۔دین میں بدعت ایجاد کرنے پر سخت وعید تفسیر مظہری میں ہے کہ اس میں پچھلی امتوں کے لوگ بھی داخل ہیں ، جنہوں نے اپنے اصول دین کو ترک کرکے اپنی طرف سے کچھ چیزیں ملادی تھیں ، اور اس امت کے اہل بدعت بھی جو دین میں اپنی طرف سے بے بنیاد چیزوں کو شامل کرتے رہتے ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح واضح فرمایا ہے کہ: ’’میری امت کو بھی وہی حالات پیش آویں گے جو بنی اسرائیل کو پیش آئے، جس طرح کی بداعمالیوں میں وہ مبتلا ہوئے میری امت کے لوگ بھی مبتلا ہوں گے، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے، میری امت کے تہتر فرقے ہوجاویں گے، جن میں سے ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے، صحابہ کرام نے عرص کیا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟ فرمایا ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ یعنی وہ جماعت جو میرے طریقہ پر اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گی وہ نجات پائے گی (اس روایت کو ترمذی، ابوداود نے بروایت ابن عمرؓ نقل کیا ہے)‘‘۔ اور طبرانی نے بسند معتبر حضرت فاروق اعظم سے نقل کیا ہے کہ انہو ں نے حضرت