دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
پر غور وفکر اور بحث و تمحیص کرتے ہیں ، مسئلہ کے تمام گوشوں کا غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ ہوتا ہے اور ہر شخص خوب کھل کر اپنی رائے پیش کرتا ہے اور جب کوئی مسئلہ طے ہوجاتا ہے تو اس کو دلائل کے ساتھ لکھ لیا جاتا ہے۔(البلاغ ص: ۷۰-۱۷۱)تفرد سے اجتناب اور مجلس تحقیقات شرعیہ کا قیام تفرد (یعنی دوسرے علماء سے ہٹ کر کوئی ذاتی موقف اختیار کرنے) سے نفرت تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ فقہاء کرام نے محقق ابن ہمام اور شاہ ولی اللہ صاحب جیسے اصحاب اجتہاد کے تفردات کو قبول نہیں کیا تو بعد کے علماء کا معاملہ تو ان کے مقابلہ میں بہت اہون ہے،چنانچہ اگر کبھی آپ کا ذہن کسی ایسی رائے کی طرف مائل ہوجاتا جو معروف نقطۂ نظر سے مختلف ہوتی تو آپ اس تلاش میں رہتے کہ یا تو فقہاء متقدمین میں سے کسی کا قول اس کے موافق مل جائے یا معاصر علماء اس رائے پر مطمئن ہوجائیں اور جب تک یہ نہ ہوتا اس وقت تک آپ عموماً اس رائے کے مطابق فتویٰ نہ دیتے تھے۔ اس احتیاط کی ایک واضح مثال ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ہے (جس میں ) آپ نے یہ گوارہ نہیں فرمایا کہ محض اپنی رائے سے اس وضاحت کے مطابق فتویٰ دے دیں بلکہ پہلے اس وقت کے اہل فتویٰ حضرات سے استصواب کیا اور اس کے بعد اپنی رائے ظاہر فرمائی۔ آخری سالوں میں تو آپ نے شیخ الحدیث حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھ اس غرض کے لیے کراچی کے اہل علم کی ایک باقاعدہ مجلس قائم فرمادی تھی جس کا نام ’’مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ تھا اور اس کا کام ہی یہی تھا کہ وہ نوپیش آمدہ مسائل کی اجتماعی طور پر تحقیق کرے اس مجلس کا اجلاس عموماً ہر مہینہ ایک مرتبہ ہوتا تھا۔ (البلاغ ص: ۴۰۹)