دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
غایت درجہ تحقیق و احتیاط کی ضرورت افتاء کا منصب علمی سلسلوں میں سب سے زیادہ مشکل دقیق ترین سمجھا گیا ہے فقہ کی متماثل جزئیات اور ان کے متعلقہ احکام میں تھوڑے تھوڑے فرق سے حکم کا تفاوت محسوس کرنا عمیق علم کو چاہتا ہے جو کہ ہر عالم و مدرس کے بس کی بات نہیں جب تک فقہ سے کامل مناسبت، ذہن و ذکاء میں خاص قسم کی صلاحیت اور قلب میں مادۂ تفقہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب مکمل تحقیق کے باوجود استفتاء کے جوابات تحریر فرمانے میں غایت احتیاط سے کام لیا کرتے تھے۔(البلاغ ص:۷۱۲) نیز حضرت مفتی صاحب جب تک مسئلے کی پوری تحقیق نہ فرمالیتے اور اس تحقیق پر مکمل شرح صدر نہ ہوجاتا فتویٰ صادر نہ فرماتے تھے اور جہاں ضرورت ہوتی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اجتناب کا حکم صادر فرماتے۔ (البلاغ ص:۱۲-۷۱۳) اگر حضرت مفتی صاحب کو کسی مسئلہ میں تردد یا شبہ ہوجاتا تو سائلین کو دوسرے ائمہ فقہ کی طرف رجوع کرنے اور ان سے مسئلہ دریافت کرکے عمل کرنے کی ترغیب فرماتے۔(البلاغ ص:۷۲۵) خود بھی بعض مسائل میں دوسرے علماء سے استفادہ فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً اپنے ذاتی مسائل میں تو اکثر رجوع فرمایا کرتے تھے۔(البلاغ ص:۷۲۸)خود رائی سے اجتناب اور بڑوں وہمعصروں سے مشورہ کی ضرورت خودرائی اور خودبینی سے والد صاحب کو سخت نفرت تھی، روز مرہ کے عام معاملات میں بھی اپنے چھوٹوں تک سے مشورہ لینے کے عادی تھے خصوصاً فتویٰ جو دنیا و آخرت کی نازک ذمہ داری تھی اس میں تو سبھی بزرگوں سے اور خصوصاً حضرت حکیم