دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کے معاملہ میں سکوت کرنا کسی کو مورد الزام نہ بنانا لازم ہے۔ عقائد اسلامیہ کی تمام کتابوں میں اس اجماعی عقیدہ کی تصریحات موجود ہیں ۔ (معارف القرآن ۸؍۳۰۰)تمام صحابہ مغفور و مرحوم ہیں کسی صحابی کی طرف عیب یا برائی منسوب کرنا جائز نہیں یہیں سے اہل سنت والجماعت کے اس عقیدہ اور عمل کی تصدیق ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اگر چہ گناہوں سے معصوم نہیں ، ان سے بڑے گناہ بھی ہوسکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود امت کے لیے یہ جائز نہیں کہ ان کی طرف کسی برائی اور عیب کو منسوب کرے۔ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اتنی بڑی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کرکے ان کے ساتھ لطف و کرم کا معاملہ فرمایا اور ان کو رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کا مقام عطا فرمایا تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ ان میں سے کسی کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے۔ (معارف القرآن ۲؍۲۱۲)صحابہ کرامؓ کے باہمی اختلافات و نزاع کی وجہ سے کسی صحابی پر الزام واعتراض اور طعن و تشنیع کرنا جائز نہیں حافظ ابن تیمیہؒ نے عقیدۂ واسطیہ میں فرمایا ہے کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلاف اور قتل وقتال ہوئے ہیں ان میں سے کسی پر الزام واعتراض کرنے سے باز رہیں ، وجہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو روایات ان کے متعلق