دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اختلافات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم بنانا آپ کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں حضرات مفسرین نے فرمایا کہ ارشاد قرآنی پر عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں ، آپ کے بعد آپؐ کی شریعت مطہرہ کا فیصلہ خود آپؐ ہی کا فیصلہ ہے اس لیے یہ حکم قیامت تک اس طرح جاری ہے کہ آپ کے زمانہ مبارک میں خود بلا واسطہ آپ سے رجوع کیا جائے اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کیا جائے جو در حقیقت آپ ہی کی طرف رجوع ہے۔چند اہم مسائل اوّل یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے جو اپنے ہر جھگڑا اورہر مقدمہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مطمئن نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس شخص کو قتل کرڈالا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا ، اور پھر معاملہ کو حضرت عمرؓ کے پاس لے گیا، اس مقتول کے اولیاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں حضرت عمرؓ پر دعویٰ کردیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بلا وجہ قتل کردیا، جب یہ استغاثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوا تو بے ساختہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا، ما کنت اظن ان عمر یجترئ علی قتل رجل مؤمن (یعنی مجھے یہ گمان نہ تھا کہ عمر کسی مرد مومن کے قتل کی جرأت کریں گے)۔ اس سے ثابت ہوا کہ حاکم اعلیٰ کے پاس اگر کسی ماتحت حاکم کے فیصلہ کی اپیل کی جائے تو اس کو اپنے حاکم ماتحت کی جانب داری کے بجائے انصاف کا فیصلہ کرنا چاہئے، جیسا اس واقعہ میں آیت نازل ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے