دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
چنانچہ حضرت والد صاحبؒ کے فتوؤں میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ فتوے کے شروع یا اخیر میں بالکل نمایاں اور ممتاز طریقہ پر مسئلہ کا واضح جواب لکھ دیتے ہیں اور زیادہ تر یہ جواب شروع میں ہوتا ہے۔ حضرت والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ قدیم فقہاء اور مفتی حضرات کا طریقہ یہی تھا اورایک روز غالباً حضرت شاہ جلال صاحب تھانیسری کے بعض فتاویٰ دکھائے جو اپنے موضوع پر مفصل فتاوی تھے لیکن ان کا طریقہ یہی تھا کہ سائل نے کسی چیز کے بارے میں یہ پوچھا تھا کہ ہَلْ یَجُوْزُ؟ اس پر حضرت شاہ جلال صاحب نے شروع میں لکھا تھا ’’الجواب، نعم یجوز‘‘ اور اس کے بعد دلائل کی مفصل بحث فرمائی تھی۔ حضرت والدصاحبؒ نے اس کوبطور مثال پیش کرکے فرمایا کہ یہ فتویٰ نویسی کا بہترین اسلوب ہے کہ پڑھنے والے کو سوال کا جواب ایک ہی لفظ سے مل گیا، اب اگر کوئی دلائل پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھے اور نہیں پڑھنا چاہتا ہے تو چھوڑدے۔ نرا حکم معلوم کرنے کے لیے پورا مفصل فتویٰ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ (البلاغ ص:۴۲۷)سوال کے تجزیہ و تنقیح کی ضرورت اسی طرح سوال بعض اوقات تہ در تہ ہوتا ہے اور سوال کرنے والا تمام باتوں کو گڈمڈ کرکے پوچھتا ہے۔ ایسے مواقع پر حضرت والدصاحبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جواب میں پہلے سوال کا تجزیہ خود فرمالیتے اور یہ تنقیح فرمادیتے کہ اس مسئلہ میں فلاں فلاں باتیں قابل غور ہیں پھر ان میں سے ہر ایک پر نمبر وار بحث فرماتے تھے۔ اس طرح مسئلے کے تمام گوشے پوری طرح واضح ہوکر سامنے آجاتے تھے،اور مسئلے کی تفہیم میں کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہتی تھی۔ (ایضاً ص:۴۲۷تا ۴۳۰ )