دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
قرآن کا معمول بنایا، ہر روز تین تین مرتبہ اور رات میں تین تین مرتبہ پور اقران ختم کرتے تھے، بالآخر یہی مذکورہ آیت ذہن میں آئی، اور اس کو علماء کے سامنے بیان کیا توسب نے اقرار کیا کہ اجماع کی حجت پر یہ دلیل کافی ہے۔ (معارف القرآن ۲؍۵۴۶)اجماعِ مسلمین حجت شرعیہ ہے ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ‘‘ ۔(سورہ بقرہ پ۳) قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اجماع امت کے حجت ہونے پر ایک دلیل ہے، کیونکہ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے شہداء قرار دے کر دوسری امتوں کے بالمقابل ان کی بات کو حجت بنادیا تو ثابت ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت ہے اور عمل اس پر واجب ہے، اس طرح کہ صحابہ کا قول تابعین پر اور تابعین کا قول تبع تابعین پر حجت ہے۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اس امت کے جو افعال واعمال متفق علیہ ہیں ، وہ سب محمود و مقبول ہیں ۔ کیونکہ اگر سب کا اتفاق کسی خطا پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت وسط اور عدل ہے۔ (معارف القرآن ۱؍۳۱۶)ہر زمانہ کے مسلمانوں کا اجماع حجت ہے اور امام جصاصؒ نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی دلیل ہے کہ ہر زمانہ کے مسلمانوں کا اجماع معتبر ہے، اجماع کا حجت ہونا صرف قرن اول یا کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں ، کیونکہ پوری امت کو خطاب ہے اور امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف وہ نہ تھے جو اس زمانہ میں موجود تھے بلکہ قیامت تک آنے والی نسلیں جو مسلمان ہیں وہ سب آپ کی امت میں ہیں ، تو ہر زمانے کے مسلمان شہداء اللہ ہوگئے جن کا قول حجت ہے وہ سب کسی خطا ء وغلط پر متفق نہیں ہوسکتے۔ (معارف القرآن ۱؍۳۱۷)