دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
چوری، ڈاکہ، زنا، اغواء، دھوکہ، فریب وغیرہ تمام جرائم میں کون سا جرم ایسا ہے جس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگریہ بالکل بے فائدہ ہوتے تو کوئی عقل وہوش والا انسان ان کے پاس نہ جاتا حالانکہ اب سب جرائم میں کامل وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہوشیاری عقل مندی میں معروف سمجھے جاتے ہیں اس سے ہی معلوم ہوا کہ فوائد تو کچھ کچھ تمام جرائم میں ہیں مگر چونکہ ان کی مضرت فائدہ سے بڑھی ہوئی ہے اس لیے کوئی عقلمند انسان ان کو مفید اور جائز نہیں کہتا شریعت اسلام نے شراب اور جوے کو اسی اصول کے تحت حرام قرار دیا ہے کہ اس کے فوائد سے زیادہ مفاسد اور دینی و دنیوی مضرتیں ہیں ۔ (معارف القرآن ۱؍۵۳۷)مسلمانوں کے مصالح عامہ کی رعایت اور ان کو غلط فہمی سے بچانے کا اہتمام اسی واقعہ نے ہمیں ایک سبق یہ دیا کہ جو کام فی نفسہ جائز درست ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی یہ خطرہ ہو کہ کسی مسلمان کو خود غلط فہمی پیدا ہوگئی یا دشمنوں کو غلط فہمی پھیلانے کا موقع ملے گا، تو یہ کام نہ کیا جائے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین ابن ابی کا نفاق کھل جانے کے بعدبھی فاروق اعظم کے اس مشورہ کو قبول نہیں فرمایا کہ اس کو قتل کیا جائے کیونکہ اس میں خطرہ یہ تھا کہ دشمنوں کو عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کا موقع مل جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو بھی قتل کرتے ہیں مگر دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ غلط فہمی کے خطرہ سے ایسے کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے جو مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو گو مستحب وکارثواب ہو کسی مقصد شرعی کو ایسے خطرہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ خطرہ کے ازالہ کی فکر کی جائے گی اور اس کام کو کیا جائے گا۔ (معارف القرآن ۸؍۴۵۶)