دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حائل نہیں ہونے دیا، اور نہ کبھی اپنی تنقید سے کسی کی عظمت و عقیدت پر حرف آنے دیا، ایسا کرنا مشکل ضرور ہے لیکن اس مشکل کو آپ نے جس خوش اسلوبی سے انجام دیا وہ اہل علم کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ (البلاغ ص:۱۷۱-۱۷۲) اس سلسلہ کی جو خط و کتابت ’’مکاتیب حکیم الامت‘‘ میں محفوظ ہے وہ تحقیق و تنقید، بے نفسی اور حق پرستی کا ایسا جیتا جاگتا نمونہ ہے کہ آج کل کی دنیا میں اس کی مثالیں نایاب ہیں ۔ آج کل تو دعوؤں اور اظہار برتری کا نام علمی تحقیق رکھ دیا ہے اور حملہ بازی اور دوسرے کی تنقیص و تذلیل کو ’’تنقید‘‘ کا مقدس نام دے دیا گیا ہے جو بات ایک مرتبہ زبان سے نکل گئی پتھر کی لکیر بن کر وقار کا مسئلہ بن جاتی ہے لیکن یہ سب باتیں نفسیات کی پیداوار ہیں اور جہاں فریقین کا مقصود ہی حق کی تلاش ہو وہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کہنے والا میری رائے کے موافق کہہ رہا ہے یا مخالف، وہاں نظر اس پر رہتی ہے کہ کس دلیل سے کہہ رہاہے۔ چنانچہ حضرت حکیم الامتؒ کے یہاں جو فتاویٰ کا سلسلہ جاری تھا ان میں آپ نے ایک مستقل ’’ترجیح الراجح‘‘ کا باب رکھا تھا۔ اس باب میں وہ فتاویٰ درج کئے جاتے تھے جن سے حضرت نے کسی کی توجہ دلانے سے یا خود ہی تحقیق بدل جانے کے باعث رجوع کرلیا ہو، سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا یہی رنگ تھا اور اسی کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ (البلاغ ص: ۱۷۱)بڑوں سے اختلاف رائے کا طریقہ ایسے مواقع پر حضرت والدصاحب کا عام معمول یہ تھا کہ جن صاحب سے اختلاف رائے ہوا ہے نہ صرف یہ کہ ان کے ادب و احترام میں کوئی ادنیٰ فرق نہ آنے