دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کسی مسلمان کو کافر یا کافر کو مسلمان کہنے میں افراط و تفریط کسی مسلمان کو کافر یا کافر کو مسلمان کہنا دونوں جانب سے نہایت ہی سخت معاملہ ہے، قرآن کریم نے دونوں صورتوں پر شدید نکیر فرمائی ہے۔ مسلمان کو کافر کہنے کے متعلق ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقَی اِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۔ (نساء :۹۴) اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کیا کرو تو ہر کام کو تحقیق کرکے کیا کرو، اور ایسے شخص کو جو کہ تمہارے سامنے اطاعت ظاہر کرے دنیوی زندگی کے سامان کی خواہش میں یوں مت کہہ دیا کرو کہ تو مسلمان نہیں کیونکہ خدا کے پاس بہت غنیمت کے مال ہیں ، پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا سو غور کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں (یعنی جب تم اول مسلمان ہوئے تھے اگر تمہیں بھی یہی کہہ دیا جاتا کہ تم مسلمان نہیں تو تم کیا کرتے)۔ الغرض اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنا اسلام ظاہرکرے تو جب تک اس کے کفرکی پوری تحقیق نہ ہوجائے اس کو کافر کہنا ناجائز اور وبال عظیم ہے۔ اسی طرح اس کے مقابل یعنی کافر کو مسلمان کہنے کی ممانعت اس آیت میں ہے۔ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰہُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ سَبِیْلًا۔ (سورۂ نساء:آیت نمبر۸۸) کیا تم لوگ اس کا ارادہ رکھتے ہو کہ ایسے لوگوں کو ہدایت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے