دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
(۲) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو وہ ان کے خرچ کئے ہوئے کے ایک مد (آدھاسیر) کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اورنہ نصف مد کے برابر۔ (بخاری شریف) (۳) حضرت جابرؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو سارے جہاں میں پسند فرمایاپھر میرے صحابہ میں چار کو پسند فرمایا ہے، ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ (بزار مسند صحیح) (۴) اورایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’اﷲ اﷲ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا من بعدی‘‘ (جمع الفوائد) اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ مت بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانے کا قصد کرے قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑے گا۔ (معارف القرآن ۸؍۹۶ پ۲۶)صحابۂ کرام کی ایک فضیلت ’’فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْہُمْ مَعَرَّۃٌ بِغَیْرِ عِلْمٍ‘‘ (پ۲۶) امام قرطبیؒ نے فرمایا کہ بغیر علم کے اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جائے وہ گناہ تو نہیں مگر ایک عیب اور عار اور ندامت و افسوس کا سبب ضرور ہے۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے ساتھ حق تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اگر چہ انبیاء کی طرح معصوم تو نہیں مگر عامۃً ان کوخطاؤں اور عیبوں سے بچانے کا