دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
نسخ کے مفہوم میں متقدمین و متاخرین کی اصطلاح کا فرق اور آیات منسوخہ کی تعداد چونکہ نسخ کے اصطلاحی معنی تبدیلِ حکم کے ہیں اور یہ تبدیل جس طرح ایک حکم کو بالکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لانے میں ہے، جیسے بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلہ بنادینا، اسی طرح کسی مطلق یا عام حکم میں کسی قید و شرط کو بڑھا دینا بھی ایک قسم کی تبدیلی ہے۔ اسلاف امت نے نسخ کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے، جس میں کسی حکم کی پوری بتدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی، قید وشرط یا استثنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہے، اسی لیے متقدمین حضرات کے نزدیک قرآن میں آیات منسوخہ پانچ سو تک شمار کی گئی ہیں ۔ حضرات متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا ہے جس کی پہلے حکم کے ساتھ کسی طرح تطبیق نہ ہوسکے ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخہ کی تعداد بہت گھٹ جائے گی، اسی کا لازمی اثریہ تھا کہ متقدمین نے تقریباً پانچ سو آیاتِ قرآنی میں نسخ ثابت کیا تھا، جس میں معمولی سی تبدیلی قید و شرط یا استثناء وغیرہ کو بھی شامل کیا تھا، اور حضرات متاخرین میں علامہ سیوطیؒ نے صرف بیس آیتوں کو منسوخ قرار دیا ان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کرکے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ قرار دیاہے۔ جن میں کوئی تطبیق بغیر تاویل بعید کے نہیں ہوسکتی، یہ امر اس لحاظ سے مستحسن ہے کہ احکام میں اصل بقا و حکم ہے نسخ خلاف اصل ہے۔ اس لیے جہاں آیت کے معمول بہا ہونے کی کوئی توجیہ ہوسکتی ہے اس میں ضرورت کے لیے نسخ ماننا درست نہیں ۔ لیکن اس تفصیل کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مسئلہ نسخ اسلام یا قرآن پر کوئی عیب تھاجس کے ازالہ کی کوشش چودہ سو برس تک چلتی رہی، آخری انکشاف حضرت شاہ ولی اللہ کو ہوا، جس میں گھٹتے گھٹتے پانچ رہ گئیں اور اب اس کا انتظار ہے کہ کوئی جدید تحقیق ان