دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حقیقت یہ ہے کہ یہ مغالطہ صرف اس نظریہ کی پیداوار ہے کہ مذہب کو برادری کے نوتہ کی طرح کسی کو تحفہ میں دیا جاسکتا ہے اور اسکے ذریعہ دوسری قوموں سے رشتے جوڑے جاسکتے ہیں حالانکہ قرآن کریم نے کھول کھول کر واضح کردیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ، ہمدردی، احسان و سلوک اور مروت سب کچھ کرنا چاہئے، لیکن مذہب کی حدود کی پوری حفاظت اوراس کی سرحدوں کی پوری نگرانی کے ساتھ۔ قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں اگر بالفرض ایمان بالرسول کا ذکر بالکل نہ ہوتا تو دوسری آیات قرآن جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے جن میں اس کی اشد تاکید موجود ہے وہ کافی تھیں لیکن اگر غور کیا جائے تو خود اس آیت میں بھی ایمان بالرسول کی طرف واضح اشارہ ہے، کیونکہ اصطلاح قرآن میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ساری چیزوں پر ایمان ہو، قرآن کریم نے اپنی اس اصطلاح کو ان الفاظ میں واضح فرمادیا: ’’فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا‘‘ یعنی جس طرح کا ایمان صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا صرف وہی ایمان باللہ کہلانے کا مستحق ہے اورظاہر ہے کہ ان کے ایمان کا بہت بڑا رکن ایمان بالرسول تھا، اس لیے من آمن باللہ کے لفظوں میں خود ایمان بالرسول داخل ہے۔ (معارف القرآن ۲؍۲۳۷، مائدہ پ:۶)ایمان کی تعریف ایمان کی تعریف کو قرآن نے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے صرف دو لفظوں میں پورا بیان کردیا ہے، لفظ ایمان اور غیب کے معنی سمجھ لیے جاویں تو ایمان کی پوری حقیقت اور تعریف سمجھ میں آجاتی ہے۔ لغت میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے