دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فصل ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ’’قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أمْرِ رَبِّیْ‘‘ امام جصاصؒ نے اس جواب سے یہ مسئلہ نکالا کہ مفتی اور عالم کے ذمہ یہ ضروری نہیں کہ سائل کے ہر سوال اور اس کی ہر شق کا جواب ضرور دے بلکہ دینی مصالح پر نظر رکھ کر جواب دینا چاہئے جو جواب مخاطب کی فہم سے بالا تر ہو یا اس کے غلط فہمی میں پڑجانے کا اندیشہ ہو تو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔ اسی طرح بے ضرورت یا لایعنی سوالات کا جواب بھی نہیں دینا چاہئے البتہ جس شخص کو کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس کے متعلق اس کو کچھ عمل کرنا لازم ہے اور خود وہ عالم نہیں تو مفتی اور عالم کو اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ (جصاص) امام بخاری نے کتاب العلم میں اس مسئلہ کا ایک مستقل ترجمۃ الباب رکھ کر بتلایا ہے کہ جس سوال کے جواب سے مغالطہ میں پڑنے کا خطرہ ہو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے۔ (معارف القرآن بنی اسرائیل ۵؍۵۱۶)غیر ضروری تحقیقات اور اختلافی مسائل میں طویل بحثوں سے اجتناب فَلاَ تُمَارِ فِیْہِمْ اِلاَّ مِرَآئً ظَاہِراً وَّلا تَسْتَفْتِ فِیْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَداً۔ (کہف پ:۱۵) یعنی آپ اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے متعلق ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں