دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
البتہ روح المعانی میں مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ سب کلام افضلیت میں ہے جو از میں نہیں ، اگر کوئی شخص اپنا نام شروع کے بجائے اخیر میں لکھ دے تو یہ بھی جائز ہے، فقیہ ابو اللیث کی بستان میں ہے کہ اگر کوئی شخص مکتوب الیہ کے نام سے شروع کردے تواس کے جواز میں کسی کو کلام نہیں کیونکہ امت میں یہ طریقہ بھی چلا آرہا ہے اس پر نکیر نہیں کی گئی۔(روح المعانی وقرطبی)خط کاجواب دینا بھی سنت ِ انبیاء ہے تفسیر قرطبی میں ہے کہ جس شخص کے پاس کسی کا خط آئے اس کے لیے مناسب ہے کہ اس کا جواب دے کیونکہ غائب کا خط حاضر کے سلام کے قائم مقام ہے، اسی لیے حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت میں ہے کہ وہ خط کے جواب کو جوابِ سلام کی طرح واجب قرار دیتے تھے۔ (قرطبی)خطوط میں بسم اللہ لکھنا حضرت سلیمان علیہ السلام کے مذکورہ خط سے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ خط سے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مکاتیب سے ایک مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ خط کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا سنت انبیاء ہے، رہا یہ مسئلہ کہ بسم اللہ کو اپنے نام سے پہلے لکھے یا بعد میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاتیب اس بات پر شاہد ہیں کہ بسم اللہ کو سب سے مقدم اس کے بعد کاتب کا نام ، پھر مکتوب الیہ کا نام لکھا جائے، اور قرآن کریم میں جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا نام پہلے اور بسم اللہ بعد میں مذکور ہے اس کے ظاہر سے جواز اس کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اپنے نام کے بعد لکھی جائے لیکن ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان سے نقل کیا ہے کہ در اصل حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے خط میں اس طرح لکھا تھا۔