دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اسی سبب للمعصیت پر مبنی ہے ’’ولا تخضعن بالقول‘‘ کی نہی بھی اسی پر وارد ہے اگر چہ یہ ظاہر ہیکہ ان تمام امور میں معصیت کے قصد ونیت کا دور کا بھی احتمال نہیں لیکن یہاں ایک اہم بات قابل غور یہ ہے کہ تسبب ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس میں سارے مباحات آجاتے ہیں اگر تسبب کے مفہوم کو مطلقاً سببیت کے لیے عام رکھا جائے تو شاید دنیا کا کوئی مباح کام بھی مباح اور جائز نہیں رہے گا، زمین سے غلہ وپھل اگانے والا اس کا بھی سبب بنتا ہے کہ اس غلہ اور ثمرات سے اعداء اللہ کو نفع پہنچے کپڑا بننا ، مکان بنانا،ظروف و استعمالی چیزیں بنانا ان سب میں بھی یہ ظاہر ہے کہ ہر ایک برّ و فاجر ان کو خریدتا اور استعمال کرتا ہے اور اپنے فسق و فجور میں بھی استعمال کرتا ہے۔ اور سبب اس کا ان چیزوں کا بنانے والا ہوتا ہے اگر اس طرح حرمت کو عام کیا جائے تو شاید دنیا میں کوئی کام بھی جائز نہ رہے۔ (جواہر الفقہ ص:۴۵۳ ج:۲ ، قدیم)سبب قریب وبعید کی تفصیل اس لیے ضروری ہے کہ سبب قریب وبعید کافرق کیا جائے سبب قریب ممنوع اور سبب بعید مباح ہو، مذکورہ امثلہ میں سے سبب بعید کی مثالیں ہیں اس لیے وہ جائز رہیں گی، پھر سبب قریب کی بھی دو قسمیں ہیں ایک سبب جالب وباعث جو گناہ کے لیے متحرک ہو کہ اگر یہ سبب نہ ہوتا تو صدور معصیت کے ہونے کی کوئی ظاہری وجہ نہ تھی، ایسے سبب کا ارتکاب گویا معصیت ہی کا ارتکاب ہے۔ علامہ شاطبیؒ نے موافقات جلد اول کے مقدمہ میں ایسے ہی اسباب کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’ایقاع السبب ایقاع المسبب‘‘ نص قرآنی میں جہاں تسبب کو حرام قرار دیا ہے کہ سبب المشرکین یا عورتوں کے لیے ضرب ارجل یا قنوع بالقول یا تبرج جاہلیت، یہ سب اسی قسم کے اسباب ہیں کہ معصیت کی تحریک کرنے والے اور جالب وباعث ہیں ۔ ایسے اسباب کا ارتکاب