دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
خدمتیں انجام دے سکتے ہو، لیکن یہی بات اگر قرآن و سنت کی تشریح کے دقیق اور نازک کام کے لیے کہی جائے تو اس پر علماء کی اجارہ داری کے آوازے کسے جاتے ہیں کیا قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کرنے کے لیے کوئی اہلیت اورکوئی قابلیت درکار نہیں ؟ کیا پوری دنیا میں ایک قرآن و سنت ہی کا علم ایسا لاو ارث رہ گیا ہے کہ اس کے معاملہ میں ہر شخص کو اپنی تشریح و تعبیر کرنے کا حق حاصل ہے، خواہ اس نے قرآن وسنت کا علم حاصل کرنے کے لیے چند مہینے بھی خرچ نہ کئے ہوں ۔ (معارف القرآن ۲؍۴۸۹، نساء)اجتہاد کی اجازت اور مجتہد کے لیے اجر و ثواب کا وعدہ ’’وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَہُمُ الْبَیِّنَاتُ‘‘۔(سورۂ آل عمران، پ۴) آیت میں جس تفرق و اختلاف کی مذمت ہے اس سے مرادوہ تفریق ہے جو اصول دین میں ہو، یا فروع میں نفسانیت کے غلبہ کی وجہ سے ہو، چنانچہ آیت میں یہ قید کہ ’’احکام واضحہ آنے کے بعد‘‘ اس امر پر واضح قرینہ ہے، کیونکہ اصول دین سب واضح ہوتے ہیں اور فروع بھی بعض ایسے واضح ہوتے ہیں کہ اگر نفسانیت نہ ہو تو اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی۔ لیکن جو فروع غیر واضح ہیں کسی نص صریح نہ ہونے کی وجہ سے یا نصوص کے ظاہری تعارض کی وجہ سے ایسے فروع میں رائے و اجتہاد سے جو اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ اس آیت کے مفہوم میں داخل ہے، اور وہ صحیح حدیث اس کی اجازت کے لیے کافی ہے جس کو بخاری و مسلم نے مرفوعاً عمر وبن العاص سے روایت کی ہے کہ جب کوئی اجتہاد کرے اور وہ حکم ٹھیک ہو، تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ جس اختلاف اجتہادی میں خطا ہونے پر بھی ایک ثواب ملتا ہے وہ مذموم نہیں ہوسکتا۔ (معارف ۲؍۱۴۳، آل عمران)