دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
دلائل وشواہد اور کتب عقائد کی تصریحات (۱) فاروق اعظم نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ وہ منافق نہیں مؤمن مخلص ہیں ، مگر یہ غلطی ان سے سرزد ہوگئی اس لیے اس کو معاف فرمادیا، اور فرمایا کہ یہ اہل بدر میں سے ہیں ، اور شاید اللہ تعالیٰ نے تمام حاضرین بدر کے متعلق مغفرت اور معافی کا حکم نافذ کردیا ہے۔ (یہ روایت حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے)۔ (۲) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے حضرت عثمان اور بعض صحابہ کرام پر غزوۂ احد میں کے اسی واقعہ کا ذکر کرکے طعن کیا کہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اس پر حضرت عبد اللہ ابن عمر نے فرمایا کہ جس چیز کی معافی کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا اس پر طعن کرنے کا کسی کو کیا حق ہے۔ (صحیح بخاری) (۳) اسی لیے اہل سنت والجماعت کے عقائد کی کتابیں سب اس پر متفق ہیں کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم اور ان پر طعن و اعتراض سے پرہیز واجب ہے۔علمائے متکلمین و محققین کی تصریحات (۱) عقائد نسفیہ میں ہے ’’ویکف عن ذکر الصحابۃ الا بخیر‘‘ یعنی واجب ہے کہ صحابہ کا ذکر بغیر خیر اور بھلائی کے نہ کرے۔ (۲) شرح مسامرہ ابن ہمام میں ہے: اعتقاد اہل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم۔ یعنی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام کو عدول وثقات سمجھیں ، اور ان کا ذکر مدح و ثناء کے ساتھ کریں ۔ (۳) شرح مواقف میں ہے ’’یجب تعظیم الصحابۃ کلہم والکف