دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
قرآن فہمی کے لیے معمولی عربی کافی نہیں قرآن فہمی کے لیے ادب عربی سیکھنا بھی ضروری ہے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت فاروق اعظم کو بھی اس لفظ (اَوْ یَاخُذَہُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ) کے معنی میں تردد پیش آیا تو آپ نے برسر منبر صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ لفظ تخوّف کے آپ کیا معنی سمجھتے ہیں ؟ عام مجمع خاموش رہا، مگر قبیلۂ ہذیل کے ایک شخص نے عرض کیا کہ امیر المومنین یہ ہمارے قبیلہ کا خاص لغت ہے، ہمارے یہاں یہ لفظ تنقّص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی بتدریج گھٹانا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا عرب اپنے اشعار میں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں ! اور اپنے قبیلہ کے شاعر ابو کبیر ہذلی کا ایک شعر پیش کیا، جس میں یہ لفظ بتدریج گھٹانے کے معنی میں لیا گیا تھا، اس پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : لوگو! تم اشعار جاہلیت کا علم حاصل کرو، کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معنی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ معمولی طور پر عربی زبان بولنے لکھنے کی قابلیت قرآن فہمی کے لیے کافی نہیں ، بلکہ اس میں اتنی مہارت اور واقفیت ضروری ہے جس سے قدیم عرب جاہلیت کے کلام کو پورا سمجھا جاسکے، کیونکہ قرآن کریم اسی زبان اور انہی کے محاورات میں نازل ہوا ہے اس درجہ کا ادب عربی سیکھنا مسلمانوں پر لازم ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے زمانہ جاہلیت کی عربی زبان اور اس کا لغت و محاورات سمجھنے کے لیے شعرائے جاہلیت کا پڑھنا پڑھانا جائز ہے، اگر چہ یہ ظاہر ہے کہ شعرائے جاہلیت کا کلام جاہلانہ رسموں اور خلاف ِاسلام جاہلانہ افعال و اعمال