دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
آیات مذکورہ میں اگر چہ صحابۂ کرام میں باہمی درجات کا تعامل ذکر کیا گیا ہے لیکن آخر میں فرمایا ’’وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی‘‘ یعنی باوجود باہمی فرق مراتب کے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ یعنی جنت و مغفرت کا وعدہ سب ہی کے لیے کرلیا ہے، یہ وعدہ صحابۂ کرام کے ان دونوں طبقوں کے لیے ہے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے یا بعد میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا ، اور مخالفین اسلام کا مقابلہ کیا اس میں تقریباً صحابہ کرام کی پوری جماعت شامل ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے افراد تو شاذ ونادر ہی ہوسکتے ہیں جنہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود اللہ کے لیے کچھ خرچ بھی نہ کیا ہو۔ اور مخالفین اسلام کے مقابلہ و مقاتلہ میں بھی شریک نہ ہوئے ہوں اس لیے قرآن کریم کا یہ اعلان مغفرت و رحمت پوری جماعت صحابہ کرام کے لیے عام اور شامل ہے۔ ابن حزم نے فرمایا کہ اس کے ساتھ قرآن کی دوسری آیت سورۂ انبیاء کو ملاؤ جس میں فرمایا ہے’’ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓـئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ‘‘ یعنی جن لوگوں کے لیے ہم نے حسنی کو مقرر کردیا ہے، وہ جہنم سے ایسے دور رہیں گے کہ اس کی تکلیف دہ آوازیں بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچیں گی اور اپنی دلخواہ نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔صحابی کو عذاب قبر ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اور جن احادیث میں صحابۂ کرام پر مرنے کے بعد عذاب کا ذکر آیا ہے، وہ عذاب آخرت وعذاب جہنم کا نہیں برزخی یعنی قبرکا عذاب ہے۔ یہ کوئی بعید نہیں کہ صحابہ کرام میں سے اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اتفاقا توبہ کرکے اس سے پاک ہوجانے کابھی موقع نہیں ہوا تو ان کو برزخی عذاب کے ذریعہ پاک کردیا جائے گا، تاکہ آخرت کا عذاب ان پر نہ رہے۔ (معارف القرآن ۸؍۲۹۹)