دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کا یقین تھا مگر اس کو مانا نہیں اس لیے وہ مؤمن نہیں ۔ (معارف القرآن ۱؍۹۹، بقرہ پ:۱)اسلام اور ایمان ایک ہیں یا کچھ فرق ہے؟ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا۔ (پ۲۶، حجرات) اسلام کے لفظی معنی ظاہری افعال میں اطاعت کرنے کے ہیں ، اور یہ (بدوی) لوگ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرنے کے لیے کچھ اعمال مسلمانوں جیسے کرنے لگے تھے، اس لیے لفظی اعتبار سے ایک درجہ کی اطاعت ہوگئی، اس لیے لغوی معنی کے اعتبار سے اسلمنا کہنا صحیح ہوسکتا ہے۔ (اس) تقریر سے معلو م ہوگیا کہ اس آیت میں اسلام کے لغوی معنی مراد ہیں ، اصطلاحی معنی مراد ہی نہیں ، اس لیے اس آیت سے اسلام اورایمان میں اصطلاحی فرق پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا، اور اصطلاحی ایمان اور اصطلاحی اسلام اگرچہ مفہوم و معنی کے اعتبار سے الگ الگ ہیں کہ ایمان اصطلاحِ شرع میں تصدیق قلبی کا نام ہے یعنی اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول کی رسالت کو سچا ماننا، اور اسلام نام ہے اعمالِ ظاہرہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا لیکن شریعت میں تصدیق قلبی اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک اس کا اثر جوارح کے اعمال و افعال تک نہ پہنچ جائے، جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ زبان سے کلمۂ اسلام کا اقرار کرے۔ اسی طرح اسلام اگر چہ اعمال ظاہرہ کا نام ہے لیکن شریعت میں وہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک کہ دل میں تصدیق نہ آجائے، ورنہ وہ نفاق ہے، اس طرح اسلام وایمان مبدأ اور منتہا کے اعتبار سے تو الگ الگ ہیں کہ ایمان باطن اور قلب سے شروع ہوکر ظاہر اعمال تک پہنچتا ہے، اور اسلام افعال ظاہرہ سے شروع ہوکر باطن کی تصدیق