دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اختلاف ہوگیا وہ اختلاف قیامت تک مٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ اس اختلاف کے مٹانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان میں سے ایک گروہ کو قطعی طور پر حق پر اور دوسرے کو یقینی باطل قرار دیا جائے، اور یہ ممکن نہیں ہے۔ (وحدت امت، جواہرا لفقہ ص:۴۰۸)ائمہ مجتہدین کے اختلاف میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی کسی مجتہد کو مجرم اور خطا وار کہنا جائز نہیں مذکورۃ الصدر تصریحات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس مسئلہ میں صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہو اس کی کوئی جانب شرعی حیثیت سے منکر نہیں کہلائے گی کیونکہ دونوں آراء کی بنیاد قرآن و سنت اور ان کے مسلمہ اصول پر ہے اس لیے دونوں جانبیں داخل معروف ہیں ، زیادہ سے زیادہ ایک کو راجح اور دوسرے کو مرجوح کہا جاسکتا ہے، اس لیے ان مسائل مجتہد فیہا میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی کسی پر عائد نہیں ہوتا، بلکہ غیر منکر پر نکیر کرنا خود ایک منکر ہے، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کا بے شمار مسائل میں جواز وعدم جواز اور حرمت وحلت کا اختلاف ہونے کے باوجود کہیں منقول نہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر اس طرح نکیر کرتا ہو جیسے منکرات پر کی جاتی ہے یا ایک دوسرے کو یا اس کے متبعین کو گمراہی یا فسق و فجور کی طرف منسوب کرتا ہو یا اس کو ترک وظیفہ یا ارتکاب حرام کا مجرم قرار دیتا ہو، حافظ ابن عبد البرؒ نے امام شافعیؒ کا جو قول نقل کیا ہے وہ بھی اس پر شاہد ہے جس میں فرمایا ہے کہ ایک مجتہد کو دوسرے مجتہد کا تخطیہ یعنی اس کو خطا وار مجرم کہنا جائز نہیں ۔ (وحدت امت، جواہر الفقہ ۱؍۴۰۹)نااہل کے اجتہاد پر نکیر کرنا واجب ہے حضرت امام شافعیؒ نے جہاں مجتہدین کے آپس میں ایک دوسرے کے تخطیہ کو