دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کام لیا جائے کیونکہ کفرکو کفر تو کہنا ہی پڑے گا کیونکہ مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے ضروری اظہار کے بعد محض اپنی نفسانیت کی تسکین کے لیے فقرہ بازیاں نہ کی جائیں ، حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ داعیٔ حق کی مثال ریشم جیسی ہونی چاہئے کہ اس کو چھوکر دیکھو تو اتنا نرم ملائم کہ ہاتھوں کو حظ نصیب ہو لیکن اگر اسے کوئی توڑنا چاہے تو اتنا سخت کہ تیز دھار بھی اس پر پھسل کر رہ جائے، چنانچہ مباحثہ تحریری ہو یا زبانی، حضرت والد صاحبؒ حق کے معاملہ میں ادنیٰ لچک کے روا دار نہیں تھے، لیکن بات کہنے کا طریقہ ہمیشہ ایسا ہوتا جس سے عناد کے بجائے دلسوزی، حق پرستی اور للہیت متر شح ہوتی تھی۔ (البلاغ ص:۴۶۹)حق پرستی و انصاف پسندی علم و تحقیق کے سفرمیں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں ایک طالب علم کو دوسرے طالب علم سے اختلاف کرنا پڑتا ہے اور بعض مقامات پر اپنے بڑوں سے بھی اختلاف کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت والد صاحب کا طرز عمل یہ تھا کہ نہ تو کسی کا ادب و احترام اس سے اختلاف رائے کے اظہار میں مانع ہوا اور نہ کبھی اختلاف رائے نے ادب و احترام میں ادنیٰ رخنہ اندازی کی، آپ نے بعض مسائل میں بھی اختلاف کیا بلکہ اپنے شیخ و مربی حکیم الامت حضرت تھانوی سے بھی چند فقہی مسائل میں اختلاف رائے رہا، اور خود حضرت نے آپ سے یہ فرمایا کہ تمہارے دلائل پرمجھے شرح صدر نہیں ہوتا اورمیرے دلائل پر تمہیں شرح صدر نہیں ، اس لیے دونوں اپنے اپنے موقف پر رہیں تو کچھ حرج نہیں ۔ (البلاغ ص: ۴۹۴) اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی عظمت و عقیدت آپ کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ آپ نے کبھی اس عقیدت کو مسائل کی تحقیق و تنقید میں