دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
اور مقوی غذائیں ، ایسی حالت کے لیے نہ کوئی حرام حلال ہوتا ہے نہ روزہ کا افطار جائز ہوتا ہے مباح اور جائز طریقوں سے یہ چیزیں حاصل ہوسکیں تو استعمال کرے اور نہ حاصل ہوسکیں تو صبر کرے۔زینت: جس سے بدن کی کوئی خاص تقویت بھی نہیں محض تشریح خواہش ہے ظاہر ہے کہ اس کام کے لیے کسی ناجائز چیز کے جائز ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔فضول: وہ ہے جو زینت مباح کے دائرہ سے بھی آگے محض ہوس ہو اس کا حکم بھی ظاہر ہے اس لیے احکام میں کوئی رعایت ہونے کے بجائے اس فضول کی مخالفت احادیث صحیحہ میں وارد ہے۔ (جواہرالفقہ ۱/۲۹)ضرورت واضطرار کی تفصیل اور اس کا حکم لفظ ضرورت ہی سے اضطرار ماخوذ ہے ضرورت کے اصطلاحی معنی ابھی معلوم ہوچکے ہیں کہ خطرہ ٔجان کے لیے مخصوص ہے، جس میں جان کی ہلاکت کا خطرہ یقینی نہ ہو، وہ ضرورت واضطرار میں داخل نہیں بلکہ حاجت میں داخل ہے، خطرۂ جان کا یقین ہونا بھی قرآن کریم ہی کے الفاظ سے ثابت ہے، جن مواقع میں قرآن نے استعمال حرام کی اجازت دی ہے وہ ایسے ہی ہیں جن میں ہلاکت کا خطرہ یقینی ہے، جس صورت میں ہلاکت جان کا خطرہ یقینی نہ ہو اگر چہ خوف کسی درجہ میں ہو، وہ بھی حالت اضطرار نہیں مثلاً ایک شخص کسی کو قتل کی دھمکی دیتا ہے اور ارادہ بھی کرلیتا ہے مگر صرف اتنی بات سے یہ شخص مضطر نہ کہلائے گا جب تک کہ حالات و اسباب قتل ایسے جمع نہ ہوجائیں جن سے بچ کر نکلنا ممکن نہ ہو، مثلاً قاتل کے پاس آلات قتل موجود ہیں ، یہ شخص تنہا ہے کسی دوسرے کی امداد کا احتمال نہیں اورخود اپنی طاقت سے اس کا مقابلہ کرکے اپنی جان بچا نہیں سکتا تو یہ شخص شرعاً مضطر کہلائے گا، جس کے لیے کلمۂ کفر زبان سے کہہ دینے کی یا کسی حرام چیز