دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مضر نہیں ،نہ اس پر کوئی گناہ ہے ۔ (معارف القرآن ج ۸ص۸۵۳ سورہ ناس )مسلمانوں کو غلط فہمی سے بچانے کا اہتمام بھی ضروری ہے اسی واقعہ نے ہمیں ایک سبق یہ دیا کہ جوکام فی نفسہٖ جائز ودرست ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی یہ خطرہ ہو کہ کسی مسلمان کو خود غلط فہمی پیداہوگی ،یا دشمنوں کو غلط فہمی پھیلانے کا موقع ملے گا تویہ کام نہ کیاجائے گا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین ابن ابی کانفاق کھل جانے کے بعد بھی فاروق اعظمؓ کے اس مشورہ کو قبول نہیں فرمایا کہ اس کو قتل کیا جائے ،کیونکہ اس میں خطرہ یہ تھا کہ دشمنوں کو عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کا موقع مل جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو بھی قتل کردیتے ہیں ۔ مگر دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ غلط فہمی کے خطرہ سے ایسے کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے جو مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہوں گو مستحب اور کارثواب ہوں ، کسی مقصد شرعی کو ایسے خطرہ سے ترک نہیں کیاجاسکتا بلکہ خطرہ کے ازالہ کی فکر کی جائے گی اور اس کام کو کیاجائے گا۔ (معارف القرآن سورہ منافقون ص ۴۵۶ج۸)لوگوں کے طعن وتشنیع سے بچنا اسی وقت تک محمود ہے جب تک کسی مقصود شرعی پر اثر انداز نہ ہو اس معاملہ میں اصل ضابطہ جو قرآن وسنت سے ثابت ہے یہ ہے کہ جس کام کے کرنے سے لوگوں میں غلط فہمی پیداہونے اور ان کے طعن وتشنیع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو تو لوگوں کے دین کی حفاظت اور ان کو طعن وتشنیع کے گناہ سے بچنے کے نیت سے چھوڑدینا اس صورت میں توجائز ہے جب کہ یہ فعل خود مقاصد شرعیہ میں سے نہ ہو،اور