دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
’’اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ‘‘ اس کی تشریح یہ بات عام طور پر مشہور ہے اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کتب فقہ و عقائد میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں ، نیز بعض احادیث سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہے۔ کما رواہ ابو داؤد فی الجہاد عن انسؓ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ثلث من اصل الإیمان الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ولا تکفرہ بذنب ولاتخرجہ من الاسلام بعمل الحدیث۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی اصل تین چیزیں ہیں ایک یہ کہ جو شخص کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کے قتل سے باز رہو، اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو، اور کسی عمل بد کی وجہ سے اس کو اسلام سے خارج نہ قرار دو۔ اس لیے مسئلہ زیر بحث میں یہ شبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو شخص نماز روزہ کا پابند ہے وہ اہل قبلہ میں داخل ہے تو پھر بعض عقائد میں خلاف کرنے یا بعض احکام کے تسلیم نہ کرنے سے اس کو کیسے کافر کہا جاسکتا ہے۔ اور اسی شبہ کی بنیاد پر آج کل بہت سے مسلمان قسم ثانی کے مرتدین یعنی ملحدین و زنادقہ کو مرتد وکافر نہیں سمجھتے، اور یہ ایک بھاری غلطی ہے جس کا صدمہ براہِ راست اصولِ اسلام پر پڑتا ہے۔ کیونکہ میں اپنے کلام سابق میں عرض کرچکا ہوں کہ اگر قسم دوم کے ارتداد کو ارتداد نہ سمجھا جائے تو پھر شیطان کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے ضرورت ہوئی کہ اس شبہ کے منشاء کو بیان کرکے اس کا شافی جواب ذکر کیا جائے۔ اصل اس کی یہ ہے کہ شرح فقہ اکبر وغیرہ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ سے اور حواشی شرح عقائد میں شیخ ابو الحسن اشعری سے اہل سنت والجماعت کا یہ مسلک نقل کیا گیا ہے۔ ومن قواعد اہل السنۃ والجماعۃ ان لایکفر واحد من اہل القبلۃ