دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقہاء ولابین سائر المؤمنین الذین ہم المؤمنون خلاف الخ۔ (اقامۃ الدلیل ۳؍۱۳۰) اور اجماع صحابہ حجت قطعیہ ہے اس کا اتباع فرض ہے بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں سے زیادہ مؤکد اور سب سے مقدم ہے، یہ موقع اس بحث کے پھیلانے کا نہیں کیونکہ اپنے موقعے (یعنی کتب اصول) میں یہ بات باتفاق اہل علم ثابت ہوچکی ہے، اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا بھی اختلاف نہیں ۔ (رسالہ ختم نبوت، جواہر الفقہ ۶؍۲۳)اجماع کی حجیت ’’ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ الآیۃ‘‘ (آل عمران پ۵) اس آیت میں دو چیزوں کا جرم عظیم اور دخول جہنم کا سبب ہونابیان فرمایا ہے، ایک مخالفت رسول، دوسرے جس کام پر سب مسلمان متفق ہوں اس کو چھوڑ کر ان کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اجماع امت حجت ہے، یعنی جس طرح قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے اسی طرح امت کا اتفاق جس چیز پر ہوجائے اس پر بھی عمل کرنا واجب ہے اور اس کی مخالفت گناہ عظیم ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: یَدُ اﷲِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ۔ یعنی جماعت کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے اور جو شخص جماعت مسلمین سے علیحدہ ہوگا وہ علیحدہ کرکے جہنم میں ڈالا جائے گا۔ حضرت امام شافعیؒ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا اجماع حجت ہونے کی دلیل قرآن مجید میں ہے؟ آپ نے قرآن سے دلیل معلوم کرنے کے لیے تین روز تک مسلسل تلاوت