دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
صحابہ کے درمیان اجتہادی اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اعلان کرنے کے لیے ایک منادی کو بھیج دیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم لوگوں کو سنایا لایصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ ’’یعنی کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے، صحابۂ کرام سب کے سب اس دوسرے جہاد کے لیے فوراً تیار ہوکر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوگئے، راستہ میں عصر کا وقت آیا تو بعض حضرات نے حکم نبوی کے ظاہر کے موافق راستہ میں نماز عصر ادا نہیں کی بلکہ منزل مقرر بنو قریظہ میں پہنچ کر ادا کی۔ اور بعض نے یہ سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد عصر کے وقت میں بنوقریظہ پہنچ جانا ہے، ہم اگر نماز راستہ میں پڑھ کر عصر کے وقت میں پہنچ جائیں تو یہ حضور کے منافی نہیں ، انہوں نے نماز عصر اپنے وقت پر راستہ میں ادا کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام کے اس اختلاف عمل کی خبر دی گئی، تو آپ نے دونوں فریق میں سے کسی کو ملامت نہیں فرمائی، بلکہ دونوں کی تصویب فرمائی، اس سے علماء امت نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ علماء مجتہدین جو حقیقۃً مجتہد ہوں اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کے اقوال مختلفہ میں سے کسی کو گناہ اور منکر نہیں کہا جاسکتا دونوں فریقوں کے لیے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں ثواب لکھا جاتا ہے۔ (معارف القرآن ۷؍۱۱۷)اختلاف محمود اور مذموم آیت: ’’وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَاحِدَۃً‘‘ میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت وملت بنادیتا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو تمام انسانوں کو زبردستی قبول اسلام پر مجبور