دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
یعنی جوشخص عقائد باطلہ اور کلمات کفر یہ کو کسی تاویل سے اختیار کرے وہ کافر نہیں ، لیکن اس ضابطہ کا مفہوم اگر عام لیا جائے کہ کیسے ہی قطعی اور یقینی حکم میں تاویل کرے اور کیسی ہی فاسد تاویل کرے وہ بہر حال کافر نہیں تو اس کا نتیجہ یہ لازم آتا ہے کہ دنیا میں مشرکین، بت پرست یہود ونصاریٰ میں سے کسی کو بھی کافر نہ کہا جائے کیونکہ بت پرست مشرکین کی تاویل تو قرآن میں مذکور ہے ’’مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ‘‘ یعنی ہم بتوں کی فی نفسہ عبادت نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں سفارش کرکے اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں ، تو در حقیقت عبادت اللہ کی ہے، مگر قرآن نے ان کی اس تاویل کے باوجود انہیں کافر کہا ، یہود و نصاریٰ کی تاویلیں تو بہت ہی مشہور و معروف ہیں ، جن کے باوجود قرآن و سنت کی نصوص میں ان کو کافر کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متأوّل کو کافرنہ کہنے کا مفہوم عام نہیں ۔ اسی لیے علماء وفقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ تاویل جو تکفیر سے مانع ہوتی ہے اس کی شرط یہ ہے کہ وہ ضروریات دین میں ان کے مفہوم قطعی کے خلاف نہ ہو۔ (معارف القرآن، ۷؍۶۵۹)ضروریاتِ دین کی تعریف ضروریاتِ دین سے مراد وہ احکام ومسائل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے متواتر اور مشہور ہوں کہ مسلمانوں کے ان پڑھ جاہلوں تک کو بھی ان سے واقفیت ہو، جیسے پانچ نمازوں کا فرض ہونا، صبح کی دو، ظہر کی چار رکعت کا فرض ہونا۔ رمضان کے روزے فرض ہونا، سود، شراب، خنزیر کا حرام ہونا وغیرہ اگر کوئی شخص ان مسائل سے متعلق آیاتِ قرآن میں ایسی تاویل کرے جس سے مسلمانوں کا متواتر اور مشہور مفہوم الٹ جائے وہ بلا شبہ با جماع امت کافر ہے، کیونکہ وہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے انکار ہے۔