دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
شریعت اسلام نے اصل معصیت کے ساتھ ملحق کرکے ان کو بھی حرام کردیا اور جو اسباب بعیدہ ہیں کہ ان کے عمل میں لانے سے معصیت میں مبتلا ہونا عادۃً لازم و ضروری تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ دخل معصیت میں ضرور ہے ایسے اسباب و ذرائع کو مکروہ قرار دیا۔ اور جو اسباب ان سے بھی زیادہ ابعد ہیں کہ معصیت میں ان کا دخل شاذ ونادر ہے ان کو نظر انداز کرکے مباحات میں داخل کردیا، پہلے مسئلہ کی مثال شراب فروشی ہے کہ یہ شراب نوشی کا سبب قریب ہے اس کو بھی شریعت نے اسی طرح حرام کردیا جس طرح شراب نوشی حرام ہے، کسی غیر عورت کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگانا اگر چہ عین زنا نہیں مگر اس کا سبب قریب ہے۔ شریعت نے اس کو اسی طرح حرام قرار دے دیا۔ اور دوسرے مسئلہ کی مثال یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کے ہاتھ انگور فروخت کرنا جس کے متعلق معلوم ہے کہ وہ اس سے شراب ہی بناتا ہے اس کا پیشہ یہی ہے یا اس نے صراحۃً کہہ دیا ہے کہ میں اس کام کے لیے خرید رہا ہوں یہ اگرچہ شراب فروشی کے درجہ میں حرام تو نہیں مگر مکروہ وناجائز یہ بھی ہے، یہی حکم سنیما گھر بنانے یا سودی بینک چلانے کے لیے زمین مکان کرایہ پر دینے کا ہے کہ معاملہ کے وقت جب معلوم ہو کہ یہ اس مکان کو ناجائز کام کے لیے لے رہا ہے تو یہ کرایہ پر دینا مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے۔ تیسرے درجہ کی مثال یہ ہے کہ عام لوگوں کے ہاتھ انگور فروخت کئے جائیں جن میں یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص ان سے شراب کشید کرے (بنائے) مگر نہ اس نے اس کا اظہار کیا نہ ہمارے علم میں وہ ایسا شخص ہے جو شراب کشید کرتا ہے تو شرعاً اس طرح کی بیع و شراء مباح وجائز قرار دی۔ (معارف القرآن ۷؍۲۰۷)ضروری تنبیہ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ شریعت اسلام نے جن کاموں کوگناہ کا