دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
مقتدا کے علم میں رہی ہے تو اس غلطی پر خود عوام کو نہیں ٹوکتے تھے بلکہ اس عالم یا مقتدا کو تنہائی میں متوجہ فرمادیتے تھے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف سے مسئلہ بتا کرا ن کے عمل کی اصلاح کردیں اور اس کی وجہ یہ بیان فرماتے تھے کہ اگر میں براہ راست لوگوں کو مسئلہ بتادوں تو لوگ شاید میرے علم و فضل کے تو قائل ہوجائیں لیکن جن عالم یا دینی رہنما سے ان کا دن رات سابقہ ہے اس طرف سے دل میں یہ بدگمانی پیدا ہوگی کہ اتنے دن سے ان صاحب کے ساتھ رہتے ہیں مگر انہوں نے ہمیں کبھی اس غلطی پر متوجہ نہیں کیا، نتیجہ یہ ہوگا کہ جس شخص سے انہیں دینی فائدہ پہنچ رہا تھا اس پر اعتماد میں کمی آجائے گی جو ان کے دین کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ حضرت تھانویؒ تو اس حد تک احتیاط فرماتے تھے کہ جب کبھی دوسرے شہر میں جانا ہوتا اورکوئی شخص مسئلہ پوچھنے کے لیے آتا تو آپ عام طور پر خود بتانے کے بجائے اس شہر کے مفتی کا پتہ بتاتے کہ ان سے جاکر معلوم کرو، اوراپنے رفقاء سے فرماتے کہ اگر میں اس شخص کو مسئلہ بتادوں اور مقامی علماء یا مفتی حضرات کے بتائے ہوئے مسئلے سے کچھ فرق ہوجائے تو میں توکل یہاں سے چلاجاؤں گا اور یہ لوگ مقامی علماء سے بدگمان ہوکر آئندہ مسائل میں ان کی طرف رجوع کرتے وقت جھجک محسوس کریں گے۔ (البلاغ ص:۴۹۵-۴۹۶)تھوڑا سا وقت خلوت اور ذکر و شغل کے لیے بھی نکالنا چاہئے فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ۔ (پ۳۰سورۂ انشراح) یعنی جب آپ ایک محنت یعنی دعوت حق اور تبلیغ احکام سے فارغ ہوں تو دوسری محنت کے لیے تیار ہوجائیں وہ یہ کہ نماز اور ذکراللہ، دعا و استغفار میں لگ جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء جو تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے ہیں