دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
قرآن حکیم اور حقائق کونیہ و سائنسی تحقیقات وَجَعَلْنَا السَّمآئَ بُرُوْجاً۔ (سورۂ فرقان پ۱۹) یہاں پر ایک بات اصولی طور پر سمجھ لینا ضروری ہے کہ قرآن کریم کوئی فلسفہ یا ہیئت کی کتاب نہیں جس کا موضوع بحث حقائق کائنات یا آسمانوں اور ستاروں کی ہیئت و حرکات وغیرہ کا بیان ہو، مگر اس کے ساتھ ہی آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی کائنات کا ذکر بار بار کرتا ہے، ان میں غور وفکر کی طرف دعوت بھی دیتا ہے، قرآن کریم کی ان تمام آیات میں غور کرنے سے واضح طور سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز ان حقائق کونیہ کے متعلق انسان کو صرف وہ چیزیں بتلانا چاہتا ہے جن کا تعلق اس کے عقیدے اور نظرئیے کی درستی سے ہو یا اس کے دینی یا دنیاوی منافع ان سے متعلق ہوں ، قرآن کی دعوت صرف اسی حد تک ان چیزوں میں غور وفکر کی ہے جو عام مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے آلات رصدیہ بنانے یا مہیا کرنے اور اجرام سماویہ کی ہیئتیں دریافت کرنے کا مطلقاً کوئی اہتمام نہیں فرمایا، اگر ان آیات کونیہ میں تدبر اور غور وفکر کا یہ مطلب ہوتا کہ ان کے حقائق اور ہئیات اور ان کی حرکات کا فلسفہ معلوم کیا جائے تو یہ ناممکن تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام نہ فرماتے بس صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کریم نہ ان فلسفی اور سائنسی تحقیقات قدیمہ یا جدیدہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے، نہ ان سے بحث کرتا اور نہ ان کی مخالفت کرتا ہے۔ قرآن کریم کا حکیمانہ اصول و اسلوب کائنات اور مخلوقات سے متعلقہ تمام فنون کے بارے میں یہی ہے کہ وہ ہر فن کی چیزوں سے صرف اسی قدر لیتا اور بیان کرتا ہے جس قدر انسان کی دینی یا دنیوی ضرورت سے متعلق ہے اور جس کو انسان آسانی سے حاصل کرسکتا ہے، اور جس کے حصول پر تخمیناً اس کو اطمینان بھی ہوسکتا