دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کریں گے، ان میں خود دلائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت ہے نہیں اور تقلید اسی کا نام ہے کہ نہ جاننے والا کسی جاننے والے کے اعتماد پر کسی حکم کو شریعت کا حکم قرار دے کر عمل کرے، یہ تقلید وہ ہے جس کے جواز بلکہ وجوب میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ (معارف القرآن: ۵؍۳۳۴)علماء راسخین و مجتہدین کے لیے تقلید کا حکم البتہ وہ علماء جو خود قرآن و حدیث کو اور مواقع اجماع کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو ایسے احکام میں جو قرآن و حدیث میں صریح اور واضح طور پر مذکور ہیں ، اور علماء، صحابہ اور تابعین کے درمیان ان مسائل میں کوئی اختلاف بھی نہیں ۔ ان احکام میں وہ علماء براہ راست قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کریں ، ان میں علماء کو کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں ۔ (معارف القرآن ۵؍۳۳۴)مجتہد فیہ مسائل کی تعریف اور ان میں تقلید کا حکم لیکن وہ احکام ومسائل جو قرآن و سنت میں صراحۃً مذکور نہیں یا جن میں آیاتِ قرآن اور روایات حدیث میں بظاہر کوئی تعارض نظر آتا ہے یا جن میں صحابہ اور تابعین کے درمیان قرآن وسنت کے معنی متعین کرنے میں اختلاف پیش آیا ہے۔ یہ مسائل واحکام محل اجتہاد ہوتے ہیں ۔ ان کو اصطلاح میں (مجتہد فیہ) مسائل کہا جاتا ہے، ان کا حکم یہ ہے کہ جس عالم کو درجۂ اجتہاد حاصل نہیں اس کو بھی ان مسائل میں کسی امام مجتہد کی تقلید ضروری ہے۔ محض اپنی ذاتی رائے کے بھروسے پر ایک آیت اور روایت کو ترجیح دے کر اختیار کرنا اور دوسری آیت یا روایت کو مرجوح قرار دے کر چھوڑدینا اس کے لیے جائز نہیں ۔ اسی طرح جو احکام قرآن وسنت میں صراحۃً مذکور نہیں ان کو قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول سے نکالنا اور ان کا حکم شرعی متعین کرنا یہ بھی انہیں مجتہدینِ امت کا کام ہے