دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
غلو فی الدین کی تعریف اور اس کی مذمت غلو فی الدین وہ تباہ کن چیز ہے جس نے پچھلی امتوں کے دین کو دین ہی کے نام پر برباد کردیا ہے، اسی لیے ہمارے آقا و مولا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس وباء عظیم سے بچانے کے لیے مکمل تدبیریں فرمائیں ۔ حدیث میں ہے کہ حج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی جمرات کے لیے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو فرمایا کہ آپ کے واسطے کنکریاں جمع کر لائیں ۔ انہوں نے متوسط قسم کی کنکریاں پیش کردیں ، آپ نے ان کو بہت پسند فرماکر دو مرتبہ فرمایا: بِمِثْلِہِنَّ بِمِثْلِہِنَّ یعنی ایسی ہی متوسط کنکریوں سے جمرات پر رمی کرنا چاہئے پھر فرمایا: ’’اِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِیْ الدِّیْنِ فِاِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ قَبْلَکُمْ بِالْغُلُوِّ فِیْ دِیْنِہِمْ‘‘۔ یعنی غلو فی الدین سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی امتیں غلو فی الدین ہی کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئیں ۔ اس حدیث سے چند اہم مسائل معلوم ہوئے اول یہ کہ حج میں جو کنکریاں جمرات پر پھیکی جاتی ہیں ان کی حد مسنون یہ ہے جو متوسط ہوں ، نہ بہت چھوٹی ہوں ، نہ بہت بڑی ہوں ، بڑے بڑے پتھر اٹھا کر پھینکنا غلو فی الدین میں داخل ہے۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی حد شرعی وہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے متعین فرمادی اس سے تجاوز کرنا غلو ہے۔ تیسرے یہ واضح ہوگیا کہ غلو فی الدین کی تعریف یہ ہے کہ کسی کام میں اس کی حد مسنون سے تجاوز کیا جائے۔ (معارف القرآن ۲؍۶۲۰ سورہ نساء)