دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
والوں کی آسانی کے لیے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، ایک حصہ پر بسیں چلتی ہیں دوسرے پر دوسری گاڑیاں یا ٹرام۔ اسی طرح سائیکل سواروں اور پیادہ چلنے والوں کے لیے روڈ کا علیحدہ ایک حصہ ہوتا ہے۔ ایک روڈ کے کئی حصوں میں یہ تقسیم بھی اگر چہ ظاہری طور پر ایک اختلاف کی صورت ہے مگر چونکہ سب کا رخ ایک ہی سمت ہے اور ہر ایک پر چلنے والا ایک ہی منزل مقصود پر پہنچے گا، اس لیے راستوں کا یہ اختلاف بجائے مضر ہونے کے مفید اور چلنے والوں کے لیے وسعت ورحمت ہے۔ (معارف القرآن ۳؍۳۶۵-۳۶۴، انعام)مجتہد فیہ مسائل میں کسی ایک جانب کو باطل سمجھنا یا اس پر نکیر کرنا درست نہیں ’’مَا قَطَعْتُمْ مِّن لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُْخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ‘‘ (سورۂ حشر، پ۲۸) دوسرا اہم اصول اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اجتہاد شرعی کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر ان کا اجتہاد کسی مسئلہ میں مختلف ہوجائے ایک فریق جائز قرار دے اور دوسرا ناجائز تو عند اللہ یہ دونوں حکم درست اور جائز ہوتے ہیں ان میں سے کسی کو گناہ و معصیت نہیں کہہ سکتے اور اس لیے ان پر نہی عن المنکر کا قانون جاری نہیں ہوتا، کیونکہ ان میں سے کوئی جانب بھی منکر شرعی نہیں ۔ (معارف القرآن ۸؍۳۶۲، حشر) مجتہدین جن کی شان اجتہادی علماء امت میں مسلم ہے اگر کسی مسئلہ میں ان کے دو مختلف قول ہوں تو ان میں سے کسی کو بھی منکر شرعی نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کی دونوں جانبیں معروف میں داخل ہیں ایسے مسائل میں ایک رائے کو راجح سمجھنے والے کے لیے یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے پر ایسا انکار کرے، جیسا کہ گناہ پر کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ