دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
صحابہ و تابعین میں بہت سے اجتہادی اختلافات اور متضاد اقوال کے باوجود یہ کہیں منقول نہیں کہ ایک دوسرے پر فاسق یا گنہگار ہونے کا فتوی لگاتے ہوں ۔ بحث وتمحیص اور مناظرے و مکالمے سب کچھ ہوتے تھے اور ہر ایک اپنی رائے کی ترجیح کی وجوہ بیان کرتا اور دوسرے پر اعتراض کرتا تھا لیکن کوئی کسی کو اس اختلاف کی وجہ سے گنہگار نہ سمجھتا تھا۔ (معارف القرآن ۳؍۲۵۲، مائدہ) یہی وجہ ہے کہ ائمہ مجتہدین اور فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی کا مسلک باطل نہیں اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں ان کو دوسروں کے نزدیک گنہگار کہنا جائز نہیں ۔ ائمہ مجتہدین اور فقہاء مذاہب کے اختلاف کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ ایک مجتہد نے جو مسلک اختیار کیا ہے وہ اس کے نزدیک راجح ہے، مگر اس کے مقابل دوسرے مجتہد کے فقہاء صحابہ و تابعین اور ائمہ اربعہ کے بے شمار حالات اور واقعات اس پر شاہد ہیں کہ فقہی مسلک بہت سے مسائل میں مختلف ہونے اور علمی بحثیں جاری رہنے کے باوجودایک دوسرے کا مکمل اعتقاد واحترام کرتے تھے، جنگ و جدل اور خصومت و عداوت کا وہاں کوئی احتمال ہی نہ تھا، مذاہب فقہاء کے متبعین اور مقلدین میں بھی جہاں تک صحیح علم ودیانت رہے ان کے بھی باہمی معاملات ایسے ہی رہے۔ (معارف القرآن ۳؍۳۶۴، انعام)منکر ومعروف کی تعریف لفظ معروف معرفہ ہے اور منکر انکار سے ماخوذ ہے، معرفہ کہتے ہیں کسی چیز کو غور وفکر کرکے سمجھنے یا پہچاننے کو، اس کے بالمقابل انکار کہتے ہیں نہ سمجھنے یا نہ پہچاننے کو، یہ دونوں لفظ متقابل سمجھے جاتے ہیں ، قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے: ’’یَعْرِفُوْنَ