دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہوگا جو زمانہ سابق میں انبیاء علیہم السلام کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کے سب اللہ ہی کے احکام تھے۔ اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصول قرآن وسنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکام خدا ورسول ہی کے کہلائیں گے …… یہ اختلاف ہے جورحمت ہی رحمت اور لوگوں کے لیے وسعت وسہولت کا ذریعہ اور بہت سے مفید نتائج کا حامل ہے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ فروعی مسائل میں رایوں کا اختلاف جہاں تک اپنی حد کے اندر رہے وہ کوئی مضر چیز نہیں بلکہ مسئلہ کے مختلف پہلؤوں کو کھولنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں معین ہے۔ (معارف القرآن ۳؍۳۶۴، انعام)اختلاف رائے عقل و دیانت کا تقاضا ہے ائمہ مجتہدین کا اختلاف اختلافِ رحمت ہے اہل عقل وبصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں رائیں مختلف ہوسکتی ہیں ، ان میں اختلاف کرنا عقل و دیانت کا عین مقتضیٰ ہوتا ہے، ان میں اتفاق صرف دو صورتوں سے ہوسکتا ہے، یا تو مجمع میں کوئی اہل بصیرت واہل رائے نہ ہو، ایک نے کچھ کہہ دیا سب نے مان لیا اور یا پھر جان بوجھ کر کسی کی رعایت و مروت سے اپنے ضمیر اور اپنی رائے کے خلاف دوسرے کی بات پر صاد کردیا ورنہ اگر عقل و دیانت دونوں موجود ہوں تو رائے کا اختلاف ضروری ہے اور یہ اختلاف کبھی کسی حال میں مضر بھی نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کے لیے بصیرت کا سامان مہیا کرتا ہے، اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو اسی بنیاد پر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کے مجملات اور مبہمات کی تشریح و تعبیر میں اسی طرح کے اختلافات کو ’’رحمت‘‘ کہا گیا ہے جو اسلام کے عہد اول سے صحابہ و تابعین اور پھر ائمہ