دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
دلائل کی حاجت نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن وحدیث کے دلائل بتلابھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی انہی علماء کے اعتماد پرقبول کریں گے، ان میں خود دلائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت تو ہے نہیں اور تقلید اسی کانام ہے کہ نہ جاننے والا کسی جاننے والے کے اعتماد پر کسی حکم کو شریعت کا حکم قرار دے کر عمل کرے، یہ تقلید وہ ہے جس کے جواز بلکہ وجوب میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ (معارف القرآن ج۵ص۳۳۳سورہ نحل پ۱۴)بلا ضرورت سوال کرنے کی ممانعت یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤکُمْ۔(مائدہ پ۷) ان آیات میں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ بعض لوگوں کو احکام الٰہیہ میں بلا ضرورت تدقیق اور بال کی کھال نکالنے کا شوق ہوتا ہے اور جو احکام تمہیں دئیے گئے ان کے متعلق بغیر کسی داعیۂ ضرورت کے سوالات کیا کرتے ہیں ، اس آیت میں ان کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایسے سوالات نہ کیا کریں جن کے نتیجہ میں ان پر کوئی مشقت پڑ جائے یا ان کو خفیہ رازوں کے اظہار سے رسوائی ہو۔ (معارف القرآن ،مائدہ ص:۲۴۵ جلد ۳)فتویٰ لینے اور مسئلہ پوچھنے سے پہلے مستفتی کی ذمہ داری سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ۔ (مائدہ پ۶) اس میں مسلمانوں کے لیے ایک اہم اصولی ہدایت یہ ہے کہ اگر چہ جاہل عوام کے لیے دین پر عمل کرنے کا راستہ صرف یہی ہے کہ علماء کے فتوے اور تعلیم پر عمل کریں لیکن اس ذمہ داری سے عوام بھی بری نہیں کہ فتویٰ لینے اور عمل کرنے سے پہلے اپنے مقتداؤں کے متعلق اتنی تحقیق تو کرلیں جتنی کوئی بیمار کسی ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کرنے