دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل جو آخر میں ہوتا ہے وہ حکم الٰہی کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس قسم کے احکام کی اطاعت بھی اگرچہ در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن ظاہری اعتبار سے چونکہ یہ احکام صریح طور پر قرآن نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے امت کو پہنچے ہیں ، اس لیے ان کی اطاعت ظاہری اعتبار سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کہلاتی ہے جو حقیقت میں اطاعت الٰہی کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود ظاہری اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے اس لیے پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلاً مذکور ہے۔تیسری قسم تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحۃ مذکور ہے نہ حدیث میں یا ذخیرۂ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں ایسے احکام میں علماء مجتہدین قرآن وسنت کے منصوصات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور وفکر کرکے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں ۔ ان احکام کی اطاعت بھی اگر چہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن وسنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خداوندی ہی کی ایک فرد ہے، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں اور علماء کی طرف منسوب ہیں ۔ اس تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب وسنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں جن کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے ایسے احکام میں عملی انتظام حکّام و امراء کے سپرد ہے کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں مثلاً شہر کراچی میں ڈاکخانے پچاس ہوں یا سو، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں ، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آبادکاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے یہ سب مباحات ہیں ، ان کی کوئی