دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
کرتے اور اپنے نفس پر اس کی سزا جاری کرنے کے لیے کوشش کرتے تھے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا اور جب تک توبہ قبول ہوجانے کا یقین نہ ہوجائے بندھا کھڑا رہتا تھا، اور پھر ان میں سے ہر ایک کی حسنات اتنی ہیں کہ خود گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں ، ان سب پر مزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کی مغفرت کا عام اعلان فرمادیا اور صرف مغفرت ہی نہیں بلکہ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ فرماکر اپنی رضا کی بھی سند دے دی۔ (معارف القرآن ۸؍۳۰۰)مشاجرات صحابہ کی وجہ سے کسی صحابی کو مطعون کرنا جائز نہیں اس لیے ان کے آپس میں جو اختلافات اور مشاجرات پیش آئے ان کی وجہ سے ان میں سے کسی کو برا نہ کہنا اس پر طعن وتشنیع کرنا قطعاً حرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق موجب لعنت اور اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)۔ (معارف القرآن ۸؍۳۰۰)صحابۂ کرام کی کوتاہیوں میں بلا ضرورت غور وخوض، بحث و تمحیص کرنا بدبختی اوراپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالنا ہے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ جن خیار امت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے غفران و مغفرت کا یہ اعلان فرمادیا ہے اگر ان سے کوئی لغزش یا گناہ ہوا بھی ہے تو یہ آیت اس کی معافی کا اعلان کررہی ہے، پھر ان کے ایسے معاملات کو جو مستحسن نہیں ہیں غور فکر اور بحث و مباحثہ کا میدا ن بنانا بدبختی اور بظاہر اس آیت کی مخالفت ہے لَقَدْ رَضِیَ اﷲُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ یہ آیت روافض کے قول کی واضح تردید ہے جو ابو بکر و عمر اور دوسرے صحابہ پر کفر ونفاق کے الزام لگاتے ہیں ۔ (معارف القرآن ۸؍۸۱)