دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
حفاظت بھی کرتا ہے، وہ عبادت کی طرح مسلمانوں کی معاشرت کو بھی دوسروں سے ممتاز رکھنا چاہتا ہے جس کی بے شمار مثالیں قرآن و سنت میں موجود ہیں ۔ اگر اسلام اور قرآن کا یہ عقیدہ ہوتا کہ ہر مذہب و ملت میں نجات ہوسکتی ہے تو اس کو مذہب اسلام کی تبلیغ پر اتنا زور دینے کا کوئی حق نہ تھا اور اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینا اصولاً غلط اور خلاف عقل ہوتا ، بلکہ اس صورت میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن حکیم کا نزول معاذ اللہ بے کار اور فضول ہوجاتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا سارا جہاد بے معنی بلکہ ملک گیری کی ہوس رہ جاتی ہے۔ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو غلط فہمی کا ازالہ اور ایک شبہ کا جواب اس معاملہ میں بعض لوگوں کو سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۶۲ سے شبہ ہوا ہے، جس میں ارشاد ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصَّابِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن‘‘۔ یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین ان میں جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس محفوظ ہے، ان پرنہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں چونکہ ایمانیات کی پوری تفصیل دینے کے بجائے صرف ایمان باللہ والیوم الآخر پر اکتفاء کیا گیا ہے تو جو لوگ قرآن کو صرف ادھورے مطالعہ سے سمجھنا چاہتے ہیں اس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ صرف اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھنا نجات کے لیے کافی